آنکھیں بولتی ہیں

 

ہر عضو کی کوئی نہ کوئی ڈیوٹی ہے وہ ادا کر رہا ہے ہاتھ جو کام کرت ہیں وہ کان نہیں کر سکتے کان جو کام کرتے ہیں وہ ناک سے صادر نہیں ہو سکتے اور زبان سے جو بات کلام گفتگو کر سکتے ہیں وہ اور عضو سے نہیں ہو سکتی اسی طرح آنکھ صاحبہ کی کیا بات ہے آنکھ بسااوقات وہ کام کر جاتی ہے جو سارے اعضا مل کر بھی نہیں کر سکتے۔۔
‏لب نہیں اُس کی آنکھ بولتی ہے،
ایسا اندازِ گفتگو توبہ۔۔
آپ نے غور کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زبان تو بولنے اور اظہار کے لئے دی ہے لیکن زبان کے علاوہ انسانی جسم کے دو بے زبان حصے سب سے زیادہ بولتے ہیں اول آنکھیں دوم ہاتھ..... آنکھوں کی اپنی زبان ہے، اظہار اور پیغام رسانی کا اپنا انداز اور طریقہ ہے اور آنکھیں اگر دیکھنے والے کے دل میں گلاب کھلا جاتی ہیں، محبت کے دیپ جلا جاتی ہیں، امید کی شمع روشن کر جاتی ہیں تو کبھی کبھی دیکھنے والے پر پتھر برسا کراسے زخمی، مایوس، ناامید اور خزاں رسیدہ پھول کی مانند مسل بھی دیتی ہیں۔ اسی لئے تو میں یہ کہتا ہوں کہ آنکھیں بولتی ہیں اور وہ بعض اوقات چند لمحوں میں وہ پیغام دے جاتی ہیں، وہ بات کہہ جاتی ہیں جو زبان سے ادا کرنے میں برسوں بھی لگ سکتے ہیں۔ آنکھوں کی تہہ میں سمندر سے بھی گہرا سمندر پوشیدہ ہوتا ہے۔ جس میں انسان ڈوب بھی سکتا ہے۔ بقول شاعر
میکدے سے جو بچ نکلتا ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
(عدم)
اسی طرح اگر آنکھوں کا سمندر چھلک جائے تو بقول شاعر
ہم رونے پہ آجائیں تودریا ہی بہادیں
شبنم کی طرح تو ہمیں رونا نہیں آتا

اب ظاہر ہے کہ ایسے مواقع پر آنکھ سے جو بات کی جاتی ہے وہ زبان سے نہیں کی جاسکتی۔ آنکھیں ایسا پوسٹ آفس ہیں جہاں خط پوسٹ بھی ہوتے ہیں اور خط وصول بھی کیے جاتے ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ آنکھیں نامہ و پیام کا وہ ذریعہ ہیں جہاں راز، راز ہی رہتا ہے ا نکھوں سے جذبوں کا اظہار بھی ہوتا ہے ناراضگی و ناپسند دیدگی غصہ خوف چالا کی اظمینان خوشی غم سب جھلکتا ہے پانی بھی ان سے جھل؛کتا ہے جو آنسو بن جاتا ہے کوئی آنکھوں میں بستا ہے تو کوئی آنکھوں میں کھٹکتا ہے ،، کوئی آنکھ کا تارا اور کوئی آنکھ کا بال بن جاتا ہے ۔۔کسی کی آنکھ میں نمی تو کسی میں خوشی کسی میں اُداسی تو کسی میں اتنی گہرائ کہ اگر اُس میں اُتر جاو تو اترتے ہی چلے جاو۔۔اگر کوئ آپ سے ٹکرا جاے تو آپ کہیں گےدیکھ کر نہیں چلتے حالانکہ وہ دیکھ کر ہی چل رہا ہوتا ہے مگر کہیں اور دیکھ رہا ہوتا ہے اور جس کو دیکھ رہا ہوتا ہے وہ ٹکراتا نہیں لیکن نظریں ٹکرا گئ ہوتی ہیں اور محبت کی ابتدا ہو جاتی ہے۔۔اور کسی کی ایک نگاہ کام کر جاتی ہی جو اقبال نے کہا
کوی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِبازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
آنکھیں بھی کتنی لاجواب تخلیق ہیں قدرت کی اور کتنی بڑی نعمت ہیں کہ اسی سے دنیا دیکھی جاتی ہے اور ہر طرح کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور ان کا بند ہونا بھی منفعت سے خالی نہیں
آنکھیں بند کرو تو آدمی تصور کی دنیا میں کھو جاتا ہے خواب بھی بند آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے
ظاہر کی آنکھ بند ہو تو باطن کی آنکھ کھلتی ہے جس کو مراقبہ بھی کہتے ہیں

ایک آنکھ کے بے شمار استعمال ہیں اور شاعروں سے بڑھ کر ان کا استعمال تو شائد ہی کسی نے کیا ہو
جیسے

آنکھیں اونچی ہویں تو ادا بن گئیں
آنکھیں نیچی ہوئیں تو حیا بن گئیں
اور یہ ہی آنکھیں ہیں واذا سمعوا مآ انزل الی الرسول تری اعینھم تفیض من الدمع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے کلام کو جب سنتے ہیں آنکھیں بہنے لگتی ہیں
دوآنکھیں محبوب ہیں اللہ کی راہ میں جاگنے والی اللہ کے خوف سے رونے والی ۔۔۔
’’حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تین افراد کی آنکھیں دوزخ نہیں دیکھیں گی۔ ایک آنکھ وہ ہے جس نے اللہ کی راہ میں پہرہ دیا، دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی خشیت سے روئی اور تیسری وہ جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے باز رہی۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے قابل اعتماد سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

’حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس مسلمان کی آنکھ سے مکھی کے سر کے برابر خوفِ خداوندی کی وجہ سے آنسو بہہ کر ا س کے چہرے پر آ گریں گے تو اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کو حرام فرما دے گا۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

جی ہاں آنکھ بولتی ہے ۔۔ کاش ہمارے حق میں آنکھ بولدے اے مولا یہ تیری یاد میں رویا تھا
فقط نگا ہ سے ہو تا ہے فیصلہ دل کا
 

Comments

Popular posts from this blog

عیسائیت کے فرقے

خانقاہ اور مسجد نورالحسن انور نقشبندی چشتی